2008 والی بات، سنی ہوگی؟ UCLA میں ایک لیب نے کچھ ایسا کر دکھایا کہ بندے کی جان چلی گئی، بس ایک فوم ہیڈ کے اندر آگ لگنے سے۔ غفلت کی حد ہی ہوگئی—لیب میں فوم ہیڈ چیک کرنا اور ہوا کے بہاؤ کو ٹھیک رکھنا صرف کتابی بات نہیں، حقیقت میں اس پر عمل نہ ہو تو جان پر بن جاتی ہے۔
ویسے تو فوم ہیڈ لیبارٹری کے گارڈین اینجلز سمجھے جاتے ہیں—زہریلی گیسیں، بخارات، آلودگی، سب سے بچاتے ہیں۔ مگر یہ تب ہی کام آتے ہیں، جب یار لوگ چیکنگ کے چکر میں رہیں۔ بس کوئی غافل ہوگیا، یا ٹیمپریچر کم زیادہ ہوا، سب گئی بھینس پانی میں!
اب، ASHRAE 110 کا سنا ہے؟ یہ کوئی جادوئی منتر نہیں، امریکیوں کا اسٹینڈرڈ ہے۔ اس فارمولے سے پتا چلتا ہے کہ فوم ہیڈ کیسے پرفارم کررہا ہے: ہوا سہی سے فلو کررہی یا صرف دکھاوا ہے، والوسٹی اچھی ہے یا صرف گراف میں، کنٹینمنٹ میں واقعی سب کچھ بند ہے یا کیمیکل باہر الٹا دانس کررہے ہیں—سب چیک کرنا ہوتا ہے۔
کارکردگی چیک کرنا بھی بس اوپری خانہ پوری نہیں۔ ایک بار انسٹال ہوگیا تو کام ختم نہیں۔ قانون اور یونیورسٹی کی پالیسی کہتی ہے: وقتاً فوقتاً معائنے کرواؤ، ورنہ اگر کسی نے لیب کا نقشہ ہی تبدیل کردیا، یا کچھ نیا آلہ فٹ کر دیا، تو پھر سے سب ناپو اور تولوں۔ کوئی شارٹ کٹ نہیں یارو۔
اب دیکھو، فیس ویلوسٹی ماپنا—چیک کرو کہ ہوا کی رفتار اتنی ہے کہ جو بھی زہریلا کچرا ہے وہ اندر ہی رہ جائے، باہر نہ آئے۔ پھر کہتے ہیں کنٹینمنٹ ٹیسٹ کرو، مطلب واقعی ماحول سیف بنا ہوا ہے یا بس ڈرامہ ہے۔ اور پھر ہوا کی سمت بھی دیکھی جاتی ہے کہ کہیں اندر گرداب تو نہیں بن گیا؟
کچھ لوگ سمجھتے ہیں، “ارے یار! ضابطے بس فارملٹی ہے!”—اصل میں یہی چیزیں لیب میں کلچر سیفٹی کا حصہ بناتی ہیں۔ باقاعدہ چیک اپ، اور جہاں گڑ بڑ دیکھو فوراً انگلی رکھ دو کہ بھائی یہاں مسئلہ ہے۔ یہ سب کچھ مل کے بناتے ہیں ایک مضبوط سیفٹی پروگرام، بات ختم۔