پاکستان کی یونیورسٹیوں، ریسرچ سینٹرز یا ہسپتالوں میں لیب بینچ—کیا ہی چیز ہے، ہر جگہ لازمی۔ لوگ اکثر اس پر بےدھیانی سے کام کرتے ہیں، جیسے یہ کوئی عام ٹیبل ہے۔ لیکن اصل میں، یہی وہ پلیٹ فارم ہے جہاں سے صحیح یا غلط، سب کچھ شروع ہوتا ہے۔ تو بھائی، سیفٹی تو لازمی ہے!
سب سے پہلے، صفائی کا حساب الگ ہی ہے۔ لیب بینچ پر فضول کاغذ، پرانے سیمپل یا بےکار اوزار پڑے ہوں؟ بس سمجھ لیں، مصیبت کو دعوت دی۔ دن کا آغاز ہی بینچ صاف کر کے کریں، خاص طور پر اگر کراچی یا لاہور جیسے شہروں میں ہیں جہاں نمی بھی اپنی الگ کہانی سناتی ہے۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے، بینچ کو بار بار صاف کرنا ہی اصل تجربہ ہے!
اب آتے ہیں کیمیکل ہینڈلنگ پر۔ پاکستان کی لیبز میں ہائیڈروکلورک ایسڈ، نائٹرک ایسڈ، الکوحل—سب کچھ مل جائے گا۔ اور بندے اکثر بنا دھیان دیے انہیں اِدھر اُدھر رکھ دیتے ہیں۔ بھائی، کنٹینر پر لیبل لگانا، اور فوم ہڈ کا استعمال کرنا جیسے عبادت ہے۔ آگ لگ جائے تو پھر؟ پھر سب بھاگتے ہیں، کوئی ذمہ داری نہیں لیتا۔
PPE—یہ لفظ سُن کر اکثر طلبہ ہنس دیتے ہیں، جیسے مذاق ہو۔ لیکن لیب کوٹ، دستانے اور چشمے پہننا صرف ڈرامہ نہیں، جان بچانے کی گارنٹی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں کئی لوگ اسے سیریس ہی نہیں لیتے، جب تک حادثہ نہ ہو جائے۔
ایرگونومکس اور روشنی بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ اسلام آباد یا فیصل آباد کی نئی لیبز میں ایڈجسٹ ایبل بینچ اور شاندار لائٹ سسٹم—واہ! ایسے میں کام کرنا الگ ہی مزہ دیتا ہے، کمر بھی نہیں دکھتی۔
ویسٹ مینجمنٹ؟ یہ اکثر سب سے زیادہ اگنور کیا جاتا ہے۔ لیکن اب کئی پاکستانی لیبز میں بائیو، کیمیکل اور شیشے کا فضلہ الگ الگ پھینکنے کے سسٹم آ گئے ہیں۔ یہ نہ صرف ماحول کے لیے بہتر ہے بلکہ قانون بھی یہی کہتا ہے—ورنہ جرمانہ تیار رکھیں۔
آخر میں، یہ سب فالو کرنا آپ کی اپنی بھلائی ہے۔ سیفٹی گائیڈ لائنز کوئی آپشن نہیں، سیدھا سیدھا فرض سمجھیں۔ ورنہ لیب بینچ پر تجربہ کرتے کرتے، تجربہ خود آپ پر نہ ہو جائے!